شادمان اور پھر اچھرہ کے راستے

 سمز سے شادمان اور پھر اچھرہ کے راستے فیروز پور روڈ پر نکلنا ایک دشوار گزار کام تھا۔ آسان اور ہرے بھرے



راستوں کی تلاش میں رہنے والا میرا دماغ کوئی نہ کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔ مجھے کینال کے ساتھ ساتھ ایک کچے راستے سے فیروز پور روڈ پر نکلنے کا ایک راستہ مل ہی گیا۔ صبح صبح زارا کو سمز چھوڑتا اور اس کچے سے راستے سے مسلم ٹاؤن موڑ تک آ جاتا۔

پہلے دوسرے دن ہی ایک مسجد نظر آ گئی، اور پہلی سوچ یہی تھی، کہ ایسی خوبصورت مسجد۔ خاموش اور تنہا سی مسجد۔ مجھے اس مسجد کے پاس سے گزرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں میں اس قدر عادی ہو گیا، کہ بہت دور سے ہی احساس جاگ جاتا، کہ آگے ابھی مسجد آنے والی ہے۔ بس ایک ہلکی سی نظر ڈالتا اور نکل جاتا۔
مسجد سڑک سے کچھ اونچی تھی۔ باہر جنگلے لگے تھے، اور ایسا لگتا تھا جیسے دروازے کھلے ہی رہتے ہوں۔ باہر سڑک سے مسجد کا صحن اور اندرونی دیواریں نظر آتی تھیں، ایسا لگتا تھا جیسے ستون اور محرابیں بہت زیادہ ہوں۔ بہت خوبصورت گنبد تھے۔ سفید رنگ سارے درودیوار پر۔
مجھے نہیں لگتا تھا میں کبھی وہاں رکوں گا، کبھی وہاں جا سکوں گا۔ میری کوئی نماز اس مسجد کے قریب نہیں پڑتی تھی۔ میں صبح سات بجے اس مسجد کے قریب سے گزرتا تھا، اور بس۔
لیکن مسجد کی محبت اور مسجد کی تعریف بڑی معنی خیز باتیں ہیں۔ یہ اپنے راستے خود بنا لیتی ہیں۔
کل سمز میں کوئی بچوں کا فنکشن تھا۔ میں نے زارا کو چھوڑ کر انتظار کرنا تھا۔ مجھے مغرب اور عشاء باہر ہی پڑھنی تھیں۔ میری پہلی سوچ لارنس باغ تھا، لیکن آج کل میرا دل اچاٹ ہو چکا ہے باغ سے۔ میں چاہتا تھا کوئی مسجد مل جائے، تنہا سی مسجد، جس میں میں اپنی منزل دہراتا رہوں۔ میں نے سمز کے اندر کی مسجد بھی دیکھی، لیکن ارد گرد شور بہت تھا۔ مجھے خاموشی اور سکون کی ضرورت تھی۔ میں نے سوچا شادمان چوک والی مسجد میں چلا جاؤں، لیکن مجھے لگا وہ مسجد نماز کے لئے تو بہت اچھی ہے، لیکن وہاں شائد منزل نہ پڑھی جا سکے۔
مجھے ایک دم سے یہ صبح سات بجے والی مسجد یاد آ گئی۔ کیوں نہ اس میں جایا جائے۔ اتنی دور بھی نہیں ہے۔ اور اس سے بہتر موقع بھی کوئی نہیں اس مسجد میں جانے کا۔
مجھے لگا جیسے میرا جانا مقدر بن چکا ہے۔ جیسے اس مسجد نے مجھے بلایا ہو، اس مسجد نے یہ سارا پروگرام ترتیب دیا ہو۔
میں زارا کو سمز ڈراپ کر کے، جب اس مسجد پہنچا تو مغرب میں ابھی آدھا پونا گھنٹہ باقی تھا۔ مسجد میری توقع سے بھی زیادہ خاموش اور پر سکون تھی۔ بہت اچھا سٹرکچر تھا۔ بہت ہی اچھا۔ برآمدے، وضو خانے، درمیان والا باغیچہ، اور پھر منبر۔ ہر حصہ لاجواب تھا۔ میں نے یونہی ٹہلتے ٹہلتے ساری مسجد گھوم لی۔ جوتے اتارنے اور ریکس میں رکھنے کا انتظام بہت خوبصورت تھا۔ واش روم بہت کھلے کھلے سے تھے۔ وضو خانے بہت تروتازہ تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تنہائی اور خاموشی بہت زیادہ تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی خواب کا حصہ ہو یہ سب کچھ۔
میں نے درمیان والے باغیچے میں بیٹھ کر اپنا سیپارہ دہرانا شروع کر دیا۔
ایسے ہی کسی خوبصورت لمحے میں مغرب کی اذان ہونے لگی، اور ادھر ادھر کے گھروں اور دفاتر سے صاف ستھرے لوگ نماز پڑھنے آ گئے۔ کچھ ہی دیر میں مسجد بھر گئی۔
بڑا اچھا لگتا ہے مسجد کا بھرنا۔ ایک رونق سی لگ جاتی ہے۔ زندگی سی دوڑ جاتی ہے۔ وضو خانے میں پانی بہنے کی آواز بہت بھلی محسوس ہوتی ہے۔ آستینیں تہہ کرتے، پائنچے اوپر کرتے، جوتے مناسب جگہوں پر رکھتے، ادھر ادھر گھومتے نمازی بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہر علاقے کی مسجد کی ایک اپنی ہی رونق ہوتی ہے، ایک اپنی ہی خوشبو ہوتی ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد لوگ آہستہ آہستہ چھٹنے شروع ہو گئے، اور بیس تیس منٹ میں مسجد پھر خالی ہو گئی۔ ایک وقت ایسا آیا جب صرف میں ہی بچا تھا وہاں۔ مسجد میں اکیلے ہونے کا احساس بھی اچھا ہوتا ہے۔ ایک وقت تو ایسا لگ رہا تھا جیسے بالکل خاموشی چھا گئی ہو۔
لیکن عشاء کی نماز سے کچھ دیر پہلے پھر اسی طرح رونق پھیلنا شروع ہو گئی۔ خوبصورت سے نمازی جمع ہوئے، اور پھر اذان اور پھر جماعت سے پہلے کی سنتیں اور پھر جماعت، اور کیسی خوبصورت جماعت۔ میرے دائیں بائیں کھڑے نمازی مجھ سے بڑی عمر کے تھے، اور بہت ہی خوبصورت نمازی تھے۔ بہت ہی صاف ستھرے۔ میں اتنے اچھے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہوا، اپنے آپ کو بہت خوش قسمت محسوس کر رہا تھا۔
عشاء کی نماز کے بعد پھر اسی طرح آدھے پونے گھنٹے میں مسجد خالی ہو گئی۔ ایک وقت ایسا آیا جب ہر آخری جانے والا، اپنے حصے کا بلب اور پنکھا بند کر جاتا۔ برآمدوں کی روشنیاں بھی بند ہو چکی تھیں، اور میرے منبر والے حصے میں ایک بس میرا بلب اور پنکھا تھا۔
میرے تین چار گھنٹے کے اس قیام کے دوران، مسجد کا خاموش اور خالی ہونا اور پھر بھرنا اور پھر پررونق ہونا، نمازیوں کا آہستہ آہستہ بڑھنا اور پھر آہستہ آہستہ کم ہونا، یہ احساس اور مناظر میرے کل کے دن کا حاصل تھے۔
بڑا ہی خوبصورت وقت تھا۔ کئی ایک بڑے نادر اور نایاب احساسات کا تجربہ ہوا ہے۔ ایک وقت تو ایسا تھا، جب مجھے محسوس ہو رہا تھا، کہ خوش قسمتی کی اعلیٰ ترین حالت یہی ہے کہ بندہ مسجد میں موجود ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments