ناول_داغ_دار_محبّت
وہ اپنی ہی دُنیا میں جينے والا انسان وہ ان سب کا عادی نہیں تھا لڑکیوں کے ساتھ رہنا اُن سے باتیں کرنا وہ تو ایک سیدھا سدھا گاؤں کا لڑکا جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے ساتھ گاؤں میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہر کام میں صائمہ خان فیصل آباد کے ایک گاؤں کا رہائشی ہے جو ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں ابھی ابھی داخلہ ملا تھا۔۔۔۔
علیزے بٹ جو ماڈل ٹاؤن کی رہائشی ہے جو ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے فل ریڈ رنگ کی فینسی فراخ پہنی ہوئی تھی اُس کا چہرہ کسی ہور جیسا نور ٹھہرا ہوا تھا اُس کا چہرہ ایسے چمک رہا تھا جیسے نور ٹھہرا ہو اُس پر براؤن آنکھیں تھی اُن میں کاجل بالوں کو اپنے رائٹ سائیڈ پر ڈالے ہونٹوں پر لپسٹک گلابی گال کانوں میں جھمکے ناک میں نوز رنگ ہیل والی سینڈل پہنے سب لڑکیوں سے الگ لگ رہی تھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی اُن کا چار دوستو کا گروپ تھا جس میں اُسکا مامو کا بیٹا بھی شامل تھا اُس کا نام ریحان تھا جس سے ماریہ ایک سائیڈ محبت کرتی تھی علیزے کی سب سے اچھی دوست ماریہ تھی۔۔۔
جو پتلی سی معصوم چہرہ ہونٹوں کے پاس ایک چھوٹا سا تیل تھا جو اُس کی خوبصورتی کو اور بھرا رہا تھا۔۔۔۔
ماریہ جو ہر پل علیزے کے ساتھ ساتھ گھومتی تھی ماریہ بھی لاہور کی رہائشی تھی جو غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر وہ علیزے کی سب سے اچھی دوست تھی۔۔۔
ارسلان اپنے موبائل کو یوز کرتا کلاس لینے کے لیے جا تھا کہ وہاں بیٹھے کچھ ٹوپوری لڑکوں نے اُسے آواز دی اوۓ بات سن یہاں....
ارسلان نے ایک بار تو اُن کی بات پر توجہ نہ دی اور اپنے راستے چلتا رہا۔۔۔
تو اُن ٹپوری لڑکوں میں اذلان شاہ بھی تھا جس کا باپ ڈی پی او لاہور تھا اذلان شاہ جس کو اپنے باپ کی پوسٹ کا گماند تھا قد اور جسامت میں وہ بہت چھوٹا تھا مگر یونیورسٹی میں وہ سب کا باپ بنا ہوا تھا۔۔۔۔ اذلان شاہ نے دوبارہ ارسلان کو آواز دی۔۔۔
ارے بہرا ہے کیا تو؟
یہ کہنے پر ارسلان خان روک گیا وہ پلٹا اُن کی طرف دیکھا اور اُن کی طرف کو آگے ہوا ۔۔
وسے تو ارسلان نرم مزاج برداشت کرنے والا انسان تھا مگر آج اُس کا یونی میں پہلا دن تھا اگر وہ آج ڈار گیا تو آگئے وہ ڈرتا ہے رھے گا یہ وہ بھی جانتا تھا۔۔۔۔ اس لیے وہ اپنے چہرے پر غصّہ لائے اُن کی طرف کو ہوا۔۔۔
تو اذلان شاہ بھی کھڑا ہوا اُس کے پیچھے ہی اُس کے چمچے بھی کھڑے ہو گئے۔۔۔
ارسلان خان ایک ہی پل میں اذلان شاہ کے مو کے اوپر جا کھڑا ہوا اُس کے فل نزدیک جا کر اُس نے اذلان شاہ کے چمچوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا کس نے آواز دی مجھے وہ سخت لہجے میں بولا تھا۔۔۔۔
چمچے تو خاموش تماشائی بنائے ہوئے تھے۔۔۔
تو اذلان شاہ غصّے میں بولا تھوڑا پیچھے ہٹ کر بات کر اذلان شاہ نے اپنا ہاتھ ارسلان خان کے کندھے کو دھکیل کر یہ کہا تھا۔۔۔
ارسلان خان اپنی جگہ سے ذرا آگئے پیچھے نہیں ہوا تھا۔۔۔ دوسری طرف علیزے بھی چُپ چاپ یہ منظر دور کھڑی دیکھ رہی تھی کبھی وہ ایک نظر ان کو دیکھتی تو دوسرے ہی پل وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہوتی بات چیٹ میں مصروف ہو جاتی۔۔
ابھی اُن کی بات شروع ہوئی ہی تھی کہ اذلان شاہ کے ایک دوست نے اذلان شاہ کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا چل یار بچا ہے جانے دے یہ کہہ کر اُس نے اذلان کو اشارہ کیا دوسری طرف سے آ رہے وہاں پر پرفیسر محمود قریشی کو دیکھ کر اذلان شاہ نے کہا جا بیٹا اج تیرا دن ہے یہ کہہ کر وُہ پیچھے کو مڑے گیا ۔۔۔
ارسلان کو سمجھ آ گئی تھی یہ مجھ سے نہیں بلکہ پرفیسر کے انے پر پیچھے ہٹے ہیں ارسلان نے ایک بار پرفیسر کو اتے دیکھا تو وہ بھی وہاں سے پلٹ کر اپنے راستے چل دیا جب وہ وہاں سے نکلنے لگا تھا اُس نے اپنے اِرد گِرد نظر دوڑائی تو ایک نظر علیزے پر جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ اُس نظر کا کمال تھا کہ ارسلان کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا تو وہ نیچے کو جُھکا وہ گرتا گرتا بچا تھا۔۔۔۔۔
0 Comments