مولانا طارق جمیل صاحب کے ہارٹ اٹیک پر ملحدین کا طنز و مزاح اور ٹھٹھے کا سائنسی جواب
دو کتابیں پڑھ کے اپنے آپ کو ارسطو سمجھنے والے کچھ لوگ طنزاً کہتے ہیں کہ مولوی لوگ بیماری میں کلونجی کیوں نہیں استعمال کرتے، ہسپتال شوگر، بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک وغیرہ کے شکار مولویوں سے کیوں بھرے پڑے ہیں؟
پہلی بات تو یہ کہ احادیث تمام مسلمانوں کیلئے حجت ہیں، صرف مولویوں کیلئے نہیں۔ تو گویا صرف مولوی کو ٹارگٹ کر کے یہ لوگ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ کوئی الگ ہی طبقہ ہے جس پر اسلام کے اصول و ضوابط لاگو ہوتے ہیں اور باقی ساری عوام تو سیکولر ہے جو ان باتوں کی محتاج نہیں جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہوں ۔۔۔
دوسری بات یہ کہ کلونجی میں ہر بیماری کی "شفاء ہونا" اور کلونجی سے ہر کسی کو "شفاء ملنا"۔۔۔ یہ دو بالکل مختلف باتیں ہیں، جن میں فرق کرنے کی معمولی صلاحیت سے بھی یہ جہلاء ناواقف ہیں۔ جبکہ دعویٰ کرتے ہیں سائینسی علوم کی مہارت کا۔
تو انکو انہی کی زبان، یعنی سائینس کی زبان میں جواب حاضر ہے:
ایک اینٹی بائیوٹک، لیبارٹری میں ٹائیفائڈ کے جراثیم کا سو فیصد خاتمہ کر دیتی ہے اور اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ دوا ٹائیفائڈ کے جراثیم کے خاتمے کیلئے سو فیصد مؤثر ہے۔ لیکن جب مریضوں میں اسکا استعمال ہوتا ہے تو ٹائیفائڈ کے سو فیصد مریض اس دوا سے تندرست نہیں ہوتے۔
کیوں؟
کیا دعوی جھوٹا تھا؟
نہیں۔۔۔
بلکہ ہر دوا کی جسم سے باہر (in vitro) اور جسم کے اندر (in vivo) افادیت مختلف ہوتی ہے۔ جسم میں جا کر بیشمار دوسرے عوامل بھی اسکی افادیت میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کیلئے آ موجود ہوتے ہیں۔
مثلاً:
۔ مریض کو دوا سے الرجی تو نہیں؟
۔ مریض کا نظام اس دوا کو مکمل طور پر ہضم اور جذب کر سکتا ہے؟
۔ مریض کا جگر اس کو غیر موثر تو نہیں کر دے گا؟
۔ مریض کے گردے اسکو نکال سکیں گے یا نہیں؟
۔ مریض کی خوراک سے افادیت پر فرق پڑے گا؟
۔ پرہیز کے بغیر دوا اثر کرے گی؟
۔ مریض کے ماحول، پیشے اور لائف سٹائل سے کوئی فرق پڑے گا؟
وغیرہ، وغیرہ، وغیرہ ۔۔۔۔۔
تو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کلونجی میں سوائے موت کے، ہر بیماری کی شفاء موجود ہے۔۔۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ لازماً ہر مریض کیلئے بھی شفاء کی ضمانت ثابت ہو گی؟
ایک شخص ورزش نہ کرے، مرغن اور میٹھے سے بھرپور غذاء لے، سگریٹ نوشی کرے اور پھر شوگر، بلڈ پریشر اور امراض قلب کا شکار ہو کر کلونجی پھک کر کہے کہ اس نے تو مجھے ٹھیک نہیں کیا، چنانچہ یہ حدیث ہی درست نہیں۔۔۔ تو اس سے بڑا بیوقوف اور کون ہو گا
0 Comments